فضائل حفظ ِ قرآن مجید

 

 

قرآن کریم  رُشد  و ہدایت کا ایسا سرچشمہ ہے  جس نے ہزاروں ، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑں  گمراہ انسانوں کو حق  کا سیدھا راستہ  دکھایا ۔ تاریخ  ِ  عالَم گواہ ہے کہ  جس دور میں یہ الٰہی کتاب  نازل ہوئی اس وقت لوگ جاہلانہ بلکہ حیوانوں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے تھے۔ دینی حالت تو مقفود  تھی ہی عام اخلاق  سے بھی  عاری یہ لوگ دنیاوی طور پر  بھی نہایت پسماندہ اور بیہیمانہ طرز  ِ  زندگی کا سفلی نمونہ تھے ۔حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ  کی قوت ِ قدسیہ اور قرآن  کریم کی برکات اور تعلیمات نے ان لوگوں کو مہذب اور متمدّن انسان بنا دیا  یہاں تک کہ جاہل کہلانے والے یہی عرب ،دنیا کے ہر علم کے بانی اور استاد  مانے گئے  نہ صرف اچھے اور مہذّب انسان بنے بلکہ اخلاق ،احساس ،ہمدردی اور بہترین معاشرت  کا عملی نمونہ بن  گئے۔

قرآن کریم کو تمام دیگر  الہامی  کتب کے مقابلے  بہت سی امتیازی خصوصیات  حاصل ہیں  قرآن کریم وہ زندہ و جاوید کلام ہے جس کی حفاظت کا وعدہ خود اللّٰہ تعالیٰ نے کیا ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی اپنے ذمہ لگایا ہے  جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ  یعنی  بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں  جبکہ باقی آسمانی کتابوں کی حفاظت اس وقت کے پیغمبرؑ   اور ان کے  پیروکاروں کے ذمہ تھی  قرآن مجید  اور باقی آسمانی  کتابوں  مابین فرق کی وجہ یہ ہے کہ قران مجید کو قیامت تک باقی رکھنا مقصود تھا جبکہ باقی آسمانی کتابیں مخصوص وقت کے نازل ہوئی تھیں 

قرآن  مجید خالقِ کائنات کی عظیم کتاب ہے ۔تمام آسمانی کتابوں  میں عظیم تر ، تمام احکامِ الٰیہہ کی جامع کتاب ہے ۔بزرگی اور تقدّس  میں سب سے ارفع و اعلیٰ مقام کی حامل ہے۔

قرآن کریم کی یہ بھی بہت بڑی فضیلت اور خصوصیت ہے کہ امتِ مسلمہ میں آج تک بے شمار لوگوں نے اسے حفظ کرنے کی سعادت پائی اور آج بھی لاکھوں  افراد کے  سینے میں محفوظ ہے۔ابتدأ سے صحابہ کرام ؓ  ،تابعین ؒ  پھر تبع تابعین ؒ اور عام مسلمان  کثرت سے  حفظ کرتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا۔اس کے برعکس دیگر مذاہب کی کتابیں مثلاً تورات اور انجیل وغیرہ  کو حفظ کرنے والا دنیامیں موجود نہیں ان کی تو الہامی حیثیت بھی صحیح طرح قائم نہیں رہی ۔خدا تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی محمّد مصطفی ﷺ کی امّت کو قرآن کریم کے حفظ کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے سابقہ اُمّتیں  اپنی مذہبی  کُتب کو صرف درساً پڑھ سکتی تھی اور وہ کُتب بھی صرف ایک نسخے پر مشتمل ہوتی تھی باوجود اسکے وہ چند صفحوں پر مشتمل ہوتی تھی پھر بھی اپنے وقت کے نبی ؑ کے علاوہ ان کا  کوئی حافظ ہوتا تھا۔زندگی کے اہم قواعد و ضوابط پر مشتمل پہلی کتاب یعنی تورات کو بھی سال میں ایک دن یعنی عید  ِ فسح کے موقع پر مجمعِ عام میں سنا دیا جاتا تھا۔پھر تورات کا قَلمی نسخہ گم ہو گیا پھر اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو چونکہ ان کو تورات یاد تھی اس لئے انہوں نے تورات کو (جو دنیا سے ناپید ہو چکی تھی ) اپنے حافظے کی مدد سے سنایا اور محفوظ کروادیا یہ اتنا بڑا کارنامہ تھا جس پر یہودی حیرت زدہ رہ گئے اور دعویٰ کردیا ہ حضرت عزیر علیہ السلام اللّٰہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ تورات کا حافظے کی مدد سے مِن و عَن سنا دینا کسی انسان کے بَس کی بات نہیں جبکہ قرآن کریم تورات کی نسبت ضخیم کتاب ہے اور سابقہ کُتب و صحائف کے تمام مضامین اور جدید احکام الٰہی پر بھی مشتمل ہے اس لحاظ سے سابقہ کتابوں کے حجم سے بھی زیادہ ہے۔ قرآن عظیم کا یہ اعجاز ہے کہ امّت ِ محمّدیہ کا چھوٹا سا بچہ بھی قرآن پاک کاحافظ بن جاتا ہے اور پورا قرآن یاد سے سنا دیتا ہے۔علامہ حسن بصری ؒ  فرماتے ہیں کہ ــــ ” حٖفظ صرف امّت ِ محمّدیہ کو حاصل ہوا ہے اور سابقہ اُمّتیں اپنی مذہبی کُتب کو صرف ناظرہ  پڑھ سکتی تھیں سوائے ان کے پغمبروں کے “

حافظ ِ قرآن کو  خاصانِ خدا کہا جاتا ہے یعنی   خدا کے خاص بندے  اس  سے  حافظ ِ قرآن کی نسبت پیدا ہو جاتی ہے آپ جانتے ہیں کہ نسبت کی بہت اہمیت ہوتی ہے ۔نسبت سے ہی کسی چیز کی قیمت متعین ہوتی ہے اس لئے   دنیا میں ہم بڑے لوگوں سے تعلق بنانے کی کوشش کرتے ہیں  کہ ہمارا شمار  بھی حاکمِ وقت یا بادشاہ کے خاص لوگوں میں کیا جائے جو کہ عارضی اور فانی دنیا کے حاکم ہیں  آپ تصوّر کریں کہ جو کہ تمام عالَم کے اور بادشاہ ِ حقیقی ہیں جب اس ذات سے “تعلقِ خاص ” پیدا ہو جائے تو اس  شخص کی خوشی اندازہ لگا سکتے ہیں واقعتاً وہ شخص قابل ِ رشک اور لائق  ِ صد فخر ہے   

 ذیل میں ہم چند احادیث نقل کرتے  ہیں  جس سے  نہ صرف خود آپ کے دل میں حفظِ قرآن کی شمع جلے گی بلکہ آپ اپنے بچوں  کو بھی قرآن کریم حفظ کروانا چاہیں گے 

                                         

  1.                                                 خدا تعالیٰ کا حفّاظ پر ٖفخر

حضرت انّس رضی الّلٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا کہ  :

ــ يُؤْتَى بِحَمَلَةِ الْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْتُمْ وِعَاءُ كَلَامِي

أَخَذْتُمْ بِمَا لَا أَخَذَبِهِ الْأَنْبِيَاءِ إِلَّا بِالْوَحْيِ

 یعنی ـ ”  ترجمه: قیامت والے دن حفاظ قرآن سے مخاطب ہو کر اللہ تعالی فرمائے گا کہ تم میرےکلام کے حفاظ ہو۔ پس تم نے وہ کچھ اخذ کیا ہے جو میرے انبیاء علیہم السلام نے لیافرق صرف یہ ہے کہ تم پر وحی نہیں کی گئی”

(2)                    قیامت کے دن حافظ ِ قرآن کے والدین کو تاج پہنایا جائے گا

معاذ جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ـ”مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ أُلْبِسَ وَالِدَاهُ تَاجًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ضَوْءُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِي بُيُوتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيكُمْ فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِي عَمِلَ بِهَذَا؟” یعنی ” جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس کے مطابق عمل کیا تو روز قیامت اس کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی تمہارے دنیا کے گھروں میں چمکنے والے سورج کی روشنی سے زیادہ اچھی ہو گی، تمہارا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے اس کے مطابق عمل کیا ہو!

(3)                           حفاظ کو دیکھ کر اللہ کا غضب رضا میں بدل جاتا ہے

حافظ قرآن پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظریں پڑتی ہیں اور اللہ تعالی کا غضب بھی محبت بن کر بہنے لگتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيَغْضِبُ فَتَسْلِمُ الْمَلَائِكَةُ لِغَضْبِهِ فَإِذَا نَظَرَ إِلَى حَمَلَةِ الْقُرْآنِ تَمَلًا رَضًا

یعنی : بے شک اللہ تعالیٰ جب غضب ناک ہوتا ہے تو فرشتے اس حالت میں بھی فرماں برداری کرتے ہیں لیکن حاملین قرآن کریم یعنی حفاظ کرام کو دیکھتے ہی اللہ تعالی کا غضب جاتا رہتا ہے اور غضب کی جگہ اس کی رضا لے لیتی ہے۔

(4)                                  حافظِ قرآن مستجاب الدعوات ہوتا ہے

   عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُكُمْ مَنْ قَرَا الْقُرْآنَ وَ أَقْرَأَهُ إِنَّ لِحَامِلِ الْقُرْآنِ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ يَدْعُوْا بِهَا فَيُسْتَجَابُ لَهُ

یعنی : حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کریم خود بھی پڑھتا ہے اور دوسروں کو بھی پڑھاتا ہے کیونکہ حامل قرآن جو دعائیں کرتا ہے وہ یقینا قبول کی جاتی

ہیں۔

(5)                        حافظ ِ قرآن قیامت کے دن عذاب ِالٰہی سے محفوظ رہےگا

                          اقْرَأَوا الْقُرْآنَ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ اللَّهُ قَلْبًا وَعَى الْقُرْآنَ

یعنی  : قرآن کریم پڑھو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے ) دل کو عذاب نہیں دے

گا جس نے قرآن کریم زبانی یاد کیا۔

 

en_USEnglish
Scroll to Top