تجوید کیا ہے ؟
تجوید کا لغوی مطلب ہے “عمدہ کرنا” یا ” سنوارنا” اور پائیدار بنانا.چنانچہ اہل عرب کیسی چیز کو مضبوط اور خوبصورت بنا ہوا دیکھتے ہیں تو بنانے والے کی تعریف میں کہتے ھیں کہ “جَوَّدالشَیْئُ” یعنی اس چیز کوبہت خوبصورت اور مضبوط بنایا اور اصطلاحی مطلب ہے کہ”اعطاء کل حرف حقہ” یعنی ہر حرف کو اس کا حق دینا” یا “ہر حرف کو اس کے اپنے مخرج سے ادا کرنا اور تمام صفات لازمہ اور عارضہ کے ساتھ ادا کرنا
تجوید کیوں ضروری ہے ؟
(وُجوب ِتجوید)
تجوید کی اہمیت : جس طرح قرآن کریم کے الفاظ اور اس کا رسم الخط محفوظ ھے اسی طرح امّت کے پاس حروف ِ قرآنیہ کی ادا اور ان کاتلفّظ بھی محفوظ ھے اور اس بات کی قطعاً اجازت نھیں کہ جو شخص جس طرح چاہے قرآن مجید کے کلمات کو ادا کرے بلکہ وھی ادا صحیح اور معتبر سمجھی جائے گی جو آنحضرت ﷺ کے عمل ِ مبارک سے ثابت ھے اور جس طرح آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے سامنے تلاوت فرمائی اور جس طرح قرآن مجید کے وہی معانی و مطالب صحیح سمجھے جائیں گے جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے مروی ہیں اسی طرح قرآن مجید کے الفاظ کی ادا بھی وہی معتبر ہوگی جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی تلاوت میں مَرعی تھی۔ قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے اس کاحکم فرمایا ھے “وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا “۔ یعنی ” اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو” اس آیت کی تشریح حضرت علی ؓ اس طرح فرمائی ہے ”
الترتیل ﮬﻮﺗﺠﻮﯾﺪﺍﻟﺤﺮﻭﻑ ﻭ ﻣﻌﺮﻓۃﺍﻟﻮﻗﻮﻑ
( ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺗﺮﺗﯿﻞﮐﮩﺘﮯﮨﯿﮟ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﮯﺣﺮﻭﻑ ﮐﻮ ﻋﻤﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺏﺻﻮﺭﺕ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺳﮯ ﺻﺎﻑﺻﺎﻑ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﻗﻔﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﺟﺎﻧﻨﺎ“
اسی طرح دوسری آیت میں فرمایا ھے “ اِنَّا اَنْزَلْنهُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا“ یعنی ” بیشک ہم نے اس قرآن کو عربی زبان (لبُّ و لہجہ ) میں نازل کیا ہے ” اس لئے ہمیں بھی عربی زبان اور لبُّ و لہجہ میں پڑھنے کاحکم دیا گیا ھے اسی ضمن میں ایک حدیثِ مبارکہ ہے “اقْرَءُوا الْقُرْآنَ بِلُحُونِ الْعَرَبِ وأَصْوَاتِها” یعنی قرآن، عربی لہجے اور عربی آواز سے پڑھا کرو ” کسی بھی زبان کے بول چال میں نہ صرف اس کے الفاظ درست ادا کرنا ہوتا ھے بلکہ اس تلفّظ اور لبُّ و لہجہ بھی ان اہل ِ زبان کی طرح کرنا ہوتا ھے اسی تلفّظ ، لبُّ و لہجہ اور قواعد کو ہم ” علم التجوید ” کہتے ہیں ۔ تجوید میں عربی زبان کے حرفوں کے درست تلفّظ اور ادائیگی سکھائی جاتی ہے اور ان قواعد کو یاد کر لینے اور قرآن کی تلاوت کے وقت ان کو عمل میں لانے سے الفاظِ قرآن کی ادا صحیح ہو جاتی ہے اور عجمی لوگوں کاتلفّظ بھی ان خالص عربوں کی طرح ہو جاتا ہے جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا تھا ۔
قرآن مجید کو تجوید کے بغیر پڑھنے کا حکم
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت افضل ترین عبادت ہے ” أفْضَلُ العِبادَةِ قِراءةُ القُرآنِ” یعنی “عبادتوں میں افضل عبادت قرآن کی تلاوت ہے” اسی طرح دوسری حدیث مبارکہ ہے کہ “ مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا ” یعنی ” جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی” اور پھر مشہور حدیث ہے ” خَيْرُكُمْ مَن تَعَلَّمَ القُرْآنَ وعَلَّمَهُ” یعنی “تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ” اس طرح اور بھی حدیث مروی ہیں مگر یاد رہے اس فضیلت اور ثواب کے حقدار ہم اس وقت ہوں گے جب قرآن مجید کے الفاظ کو درست ادا کے ساتھ پڑھیں گے جیسے کہ یہ قرآن پاک نازل ہوا اور حضور کریم ﷺ نے پڑھا اور صحابہ کرام ؓ کو تعلیم ورنہ ثواب کی بجائے گناہ ہوگا جیسا کہ اس حدیث ِ پاک میں ہے “رُبَّ قارئ لِلقُرآنِ وَالقُرآنُ يَلعَنُه ” یعنی “بہت سارے قرآن کی تلاوت کرنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر (غلط پڑھنے کی وجہ سے ) لعنت کرتا ہے۔ ” کیوں کہ حروفِ قرآنیہ کو درست ادا نہ کرنے سے معنی بدل جاتے ہیں اور پورا مفہوم بدل جاتا ہے جیسا کہ لفظ ہے ” قُلْ هُوَ اللّـٰهُ اَحَدٌ ” (یعنی کہو اللّہ ایک ہے) میں اگر ” قُلْ ” کی جگہ “کُل ” پڑھ دیا تو اس کا مطلب ہوگا “کھاوٗ اللہ ایک ہے ” اب صرف ایک لٖٖفظ بدلنے سے پورا مٖفہوم بدل گیا ہے اور اس طرح کی غلطیاں قرآن پاک کو تجوید کے ساتھ نہ پڑھنے سے وجود میں آتی ہیں۔ علامہ جزری ؒ نے اپنی کتاب
“ المقدمۃ الجزریۃ” میں ان احکامات کو مختصر انداز میں اس طرح بیان فرمایا ہے
” والاخذ باالتجوید حتم لازمُ
من لم یجود القرآن آثمُ“
یعنی قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنا لازم اور ضروری ہے جو شخص قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے ۔
” لانہ بہ الالہ انزلا
وھکذا منہ الینا وصلا”
یعنی ــ” اس لئے (تجوید کے ساتھ پڑھنا ) شان یہ ہے کہ ساتھ اس (تجوید) کے اللّٰہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور اس طرح (یعنی تجوید کے ساتھ ) اس سے (یعنی اللّہ تعالیٰ سے ) ہم تک پہنچا ہے “
احکام ِ باری تعالیٰ ، احادیث مبارکہ ،صحابہ کرامؓ اور آئمہ کرام ؒ کے اقوال کا جائزہ لینے بعد حاصل یہ ہے کہ ہر مسلمان کے لئے کم سے کم اتنا علم التجوید حاصل کرنا ضروری ھے کہ جس سے ہماری نماز اور تلاوت ِ قرآن درست ہو جائے۔